01:57:19 PM, 19-Mar-2024
+91-9472477241, 9973918786     info@jamiah.in
اردو English हिन्दी
فارغین طلبہ پورٹل
کشن گنج تاریخ کے آئینہ میں

علاقۂ سیمانچل کے ہر چھوٹے بڑے اس بات کے معترف ہیں کہ ۲۰/ویں صدی کے آخرتک پورے علاقہ میں قرآن ِ کریم کو مجہول پڑھنے کا رواج عام تھا، تصحیح وتجوید کا کہیں نام ونشان تک نہیں تھا، حتی کہ نورانی قاعدہ بھی جو تصحیح قرآن میں بہت ہی ممد ومعاون اور سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، اس علاقہ میں نہیں ملتا تھا، ایسے وقت میں جامعہ نے اپنے خرچ سے بہت سے حفاظ کو گجرات اور دیگر علاقوں میں بھیج کر ”نورانی قاعدہ“ کی مشق وتمرین کرائی اور جامعہ میں ایک مخصوص لب ولہجہ میں قرآن ِ کریم کی تعلیم وتدریس کا آغاز ہوا، جس سے نہ صرف یہاں کے طلبہ مستفیض ہوئے بلکہ علاقہ واطراف کے مدارس سے اساتذۂ کرام بھی آکر نورانی قاعدہ کی مشق وتمرین اور تلاوت ِ قرآن کے لب ولہجہ سے واقفیت حاصل کرکے اپنے اپنے اداروں میں اس طریقۂ تدریس کو جاری کیا، جس کی بدولت آج الحمد للہ پورے علاقہ میں کوئی قابل ذکر ادارہ ایسا نہیں ہے جہاں نورانی قاعدہ کی تعلیم نہ ہورہی ہو، جو اس جامعہ کا علاقۂ کشن گنج میں سب سے بڑا فیضان ہے، اسی لب ولہجہ اور تصحیح قرآن کی فکر ولگن کی وجہ سے طلبہ کی ایک بڑی تعدادہمہ وقت ادارہ میں رہ کر اپنی علمی تشنگی بجھاتے ہیں۔

کشن گنج آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد

یہ علاقہ ست جگ سے آزادی تک زرخیز،سرسبزو شاداب اور گھنے جنگلات وباغات کا علاقہ تھاکہ سیاح عالم ابن بطوبطہ نے اسے ”ارض الخضروات“ کہا، چینی سیاح نے”گل“ اور”گلکاریوں کی کیاری“ کہا اور دہلی کے بادشاہ ہمایوں نے فخر سے اس علاقہ کو ”جنت آباد“ کہا، جو اس کے قدیم نام ”پورنیہ“ سے ظاہر ہے، کیوں کہ پورنیہ کے اصل معنی جنگلوں اور باغات کاعلاقہ ہے، الغرض ”جو بھی تھا پورنیہ ہر دور میں ہر اعتبار سے خود کفیل تھا، خوبصورت تھا، خوشحال تھا، یہ زمین ست جگ سے حسین ودلکش تھی، ندیاں تھیں، تالاب تھے، باغات تھے، زرخیز کھیتیاں تھیں، طرح طرح کی صنعتیں تھیں،حرفتیں تھیں، یہ پیڑ پودوں کی زمین،پھولوں اور مہکاریوں کی زمین،تیرتے بطخوں،ناچتے موروں اور چوکڑیاں بھرتے غزالوں کی زمین تھی۔ (کاملانِ پورنیہ ۷۳)
مگر تاریخ کا طالبِ علم جانتا ہے کہ انگریز ہندوستان میں ہندوستانیوں کو کچھ دینے نہیں بلکہ یہاں سب کچھ لینے آئے تھے، یہ ہندوستان جو کل تک ”سونے کی چڑیا“ کہلاتی تھی، کیا آج تک اس کو اس کا کھویا ہوا وقار،اقتصادیات کا وہ مرتبہ مل سکا ہے؟ تو جس طرح انگریزوں نے ہندوستان کے اور علاقوں کو لوٹا اسی طرح اس علاقہ پر ان کے مظالم کچھ کم نہ رہے، کیوں کہ ایک تو یہ علاقہ اس وقت بھی مسلم اکثریت کا علاقہ تھا، دوسرے یہ کہ مال ومنال سے بھر پور تھا، اس لئے انگریزوں نے اسے خوب لوٹا اور دل کھول کر لوٹا، پھر جب ہندوستان صبح آزادی سے ہم کنار ہوا تو دیگر بہت سے علاقو ں کی ترقی ہوئی مگر اس علاقہ میں برائے نام بھی ترقی نہیں ہوئی، جو سچر کمیٹی کی رپورٹ سے بھی ظاہر ہے، جس کی دوبڑی وجہیں رہی ہیں۔ غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ (۱)حکومت عام طور پر اُن ہی علاقوں کی اولاً ترقی کی فکر اور وہاں رسل ورسائل،نقل وحمل اور آمد ورفت کے ذرائع کی فکر کرتی ہے جہاں سے خود حکومت کو بھی کچھ امیدیں ہوں یا ا ن علاقوں میں صنعتی ادارے ہوں، اور متحدہ پورنیہ ہی نہیں بلکہ بہار میں اس طرح کا کچھ نہیں، نہ ہی یہ صنعتی علاقہ ہے اور نہ یہاں بڑے کاروباری مراکز ہیں۔ (۲)پورے ہندوستان کی ترقی واستحکام کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت بستی ہے وہاں حکومت کی ”کرم فرمائیاں“ بطور خاص ہیں، یہ دوبڑی وجہیں تھیں جن کی وجہ سے یہ علاقہ ایک زمانہ تک پچھڑا ہوارہا، پھر یہاں حکومت اور اقتدار میں ایسے لوگ قابض رہے جنہوں نے بہار کو تین دن میں ”امریکہ“کے ہم سر کردیا؟

کشن گنج اور مدارس اسلامیہ

دارالعلوم دیوبند کا قیام جن مقاصد کیلئے ہوا ہے، وہ آپ ابتدائی سطور میں پڑھ آئے ہیں، وہیں یہ بھی نظر سے گذرا ہوگا کہ ا لامام نانوتوی کا جذبہ وفکر پورے ہندوستان میں مدارس ومکاتب کا جال بچھانے کا تھا، یہ فکر آپ نے صرف اپنے تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے پورے طور پر اپنے شاگردوں کے سینے میں منتقل کیا، اس لئے اور علاقو ں کی طرح بلکہ بہار میں تمام علاقوں سے زیادہ کشن گنج میں مدارس قائم ہوئے، چنانچہ پورے بہار میں ۱۱۲۸/ مدارس ہیں جن کو ابھی حکومت امداد دے رہی ہے، ان ۱۱۲۸/ میں سے ۲۴۲/ مدرسے صرف کشن گنج میں ہیں، جب کہ وہ ادارے جو حکومتی انتظام وانصرام میں چل تو رہے ہیں مگر انہیں حکومت ابھی امداد نہیں دے رہی ہے جن کی تعداد ۲۴۵۹/ ہے، ان میں متحدہ پورنیہ میں ۴۳۱/ ادارے ہیں، آج سے تیس سال قبل یعنی ۱۹۸۰ء تک یہاں یہی ادارے قائم تھے، اور کام بھی یہی ادرے خوب کررہے تھے، مگر دنیا جانتی ہے کہ علم کے یہ مراکز اور سرچشمے جن کے فیضان سے علاقہ فیضیاب ہورہا تھا جب ان پر حکومت کی نگاہ ِ کرم پڑی اور جہاں جہاں بھی حکومت کی ”دست ِ شفقت“ پڑی وہ تمام سرچشمے آج خشک اور ابلتے سوتے سونا پڑگئے، آج ان تعلیمی اداروں میں خاک اڑرہی ہے، بلڈنگیں بڑی اور عمارتیں عالیشان بن چکی ہیں مگر ان سے علاقہ کے مسلمانوں کو کتنافائدہ پہونچ رہا ہے یہ سب پر عیاں وبیاں ہے۔
ان مدارس کی یہ نا گفتہ بہ حالت دیکھ کر ہمارے دیگر خدا رسیدہ اور خدا ترسیدہ علماء کرام کھڑے ہوئے، اور عوامی چندوں اور توکل علی اللہ کے سرمایہ کے بھروسے پر دیگر تعلیمی ادارے ”درس نظامیہ“ کی بنیاد ڈالی، آج سے ۲۰/ سال قبل اس علاقہ کی عمومی حالت یہ تھی کہ معدودے چند کو چھوڑ کر اکثر مساجد میں نہ تو وقت پر اذان ہوتی تھی، اور نہ ہی جماعت وغیرہ کا اہتمام تھا، بلکہ رمضان میں بھی اکثر مساجد ختم تراویح کی سنت سے محروم رہتی تھی، اور یہ صورت پچھلے ۲۰/ویں صدی کے آخر تک رہی، گذشتہ ۹۱/ سال سے کچھ اصلاح وسدھار ہوا اور کچھ تلاش وجستجو سے اکثر مساجد کیلئے حفاظ کا انتظام ہوجاتا تھا، جب خواص میں یہ عالم تھا کہ ۵/ گاؤں میں ایک حافظ ہوتا تھا تو عوام کی کیا حالت رہی ہوگی؟ اس سے بخوبی انداز ہ ہوسکتا ہے۔ مگر اب الحمد للہ گذشتہ ۲۰/سالوں میں بہت پیش رفت ہوئی ہے، اب شاید ہی کوئی گاؤں ایسا ہوگا جہاں کم از کم۴/ حافظ قرآن نہ ہوں، اور شاید ہی کوئی مسجد ہوگی جہاں نماز باجماعت کا اہتمام نہ ہوتا ہو۔ اور یہ ان ہی مدارس نظامیہ کا فیضان ہے، جو ۳۵-۳۰/ سالوں سے قائم ہورہے ہیں، جن کی مجموعی تعداد ۴۰/ سے زائد نہیں ہوگی، ان معدودے چند مدارس کا جب اتنا عظیم فیضان ہے کہ محدود وقت میں ان مدارس نے علاقہ کی کایا پلٹ دی تو اگر پہلے سے قائم شدہ ۲۴۲/ ادارے کا نظام اگر نظامیہ ہی طرز کا رہتا تو یہ علاقہ جہاں آج مسلمانوں کی اکثریت یعنی ۲۷/ فی صد صرف مسلمان ہی بستے ہیں ان کی حالت کتنی اچھی اور بہتر ہوتی، کوئی بھی ادنیٰ سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان بآسانی اس کا اندازہ کرسکتا ہے۔
اس علاقہ کے یہ وہ روح فرسا حقائق اور تاریخی سچائیاں ہیں جن سے کسی کو مجال انکار نہیں، الحاصل یہ کہ یہ علاقہ آزادی کے بعد بری طرح افلاس وغربت کی زد میں آگیا، یہاں تک کہ بھوک مری سے بھی دو چار ہوا، اوریہاں کے باشندگان اپنا تن چھپانے کیلئے ۲/ گز کپڑے تک کو محتاج ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ غربت کے توے پر اچھی روٹی نہیں سینکی جاتی، اور افلاس کے ساز پر زمزمہ خوانی نہیں کی جاسکتی، ا سلئے یہاں کی غربت وافلاس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے باطل نے اپنے بال وپر پھیلانے شروع کئے۔ اور پورے علاقہ کو بے دینی اور بد دینی کے سیل رواں میں ڈبونے کی ناپاک سازشیں رچی جا نے لگیں تو یہاں کے علماء حق اور مردانِ کار سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوئے اور مسافران راہِ حق کو راہِ راست پر لانے کی ہر ممکن سعی ئ ممدوح کی۔ فجزا ہم اللّٰہ خیراً۔

Jamia Husainia Madni Nagar Kishanganj
+91-9472477241, 9973918786
info@jamiah.in
www.jamiah.in

Copyright © 2019 Jamia Husainia Kishanganj                   Website Developed By : Madni Soft Solutions (08273074473)

  • QR Code
  • Donation
  • Whats App
  • Facebook
  • Youtube
  • Twitter
  • Instagram