06:13:06 PM, 10-Nov-2024 |
اپنے سینے میں دل ِ درد مند اور امت کی فکر میں گھل گھل کر شب وروز ایک کرنے والے عزم وحوصلہ کے پہاڑ فدائے ملت امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی نوراللہ مرقدہ جن کی امتیازی صفت ”رہبان فی اللیل و فرسان فی النہار“ تھی، ان کی آمد اس علاقہ میں بارہا ہوئی، اور وہ اس علاقہ کے متعلق بڑے فکر مندرہتے تھے، اس لئے کہ یہاں کی غربت کی وجہ سے مسلمانو ں کی ایک بڑی تعداد دینی تعلیم سے محروم تھی، اورباطل جو اس علاقہ میں اپناقدم جما رہا تھا اس سے نمٹنے کے لئے ایک مرکزی ادارہ کی اشد ضرورت تھی، اللہ انہیں جزائے خیر عنایت فرمائے کہ انہوں نے اپنے قریبی متوسل وخلیفہ نمونۂ اسلاف حضرت مولانا محمدغیاث الدین صاحب قاسمی کو جو گجرات کے ایک بڑے ادارہ میں درس حدیث وخدمت دین میں ہمہ تن مشغول تھے باصرار یہاں اس ادارہ کے قیام کی طرف توجہ دلائی،چوں کہ حضرت کا حکم تھا اس لئے مولانا اس کو قبول کئے بغیر نہ رہ سکے، اور حضرت ہی کے ایماء واشارہ سے کشن گنج شہر سے متصل اورنیشنل ہائی وے کے کنارے یہ وسیع وعریض قطعۂ اراضی(۷/ایکر سے زائد) حاصل کرکے بیاد گار: بطل جلیل،مجاہد آزادی، شیخ الاسلا م حضرت مولانا سیدحسین احمد صاحب مدنی قدس سرہ العزیزاس ادارہ کی سنگ بنیاد رکھی گئی، اور کچھ دنوں بعد یعنی۱۷/ مئی ۱۹۹۹ء بروز منگل مطابق ۳۰/ محرم الحرام ۱۴۲۰ھ کو پانچ طالب علموں سے قطب وقت حضرت اقدس الحاج مولانا محمد امام الدین صاحب کھتا ٹولی نوراللہ مرقدہ خلیفہ اجل شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ نے اپنے افتتاحیہ بیان اوردعاء سے جامعہ کا تعلیمی افتتاح کیا۔
ہر ادارہ کا اپنا ایک نصب العین اور اپنا ایک منہج اور کچھ خصوصی امتیازات ہوتے ہیں، یہ ادارہ جو ابھی اپنی عمر کے ابتدائی ادوار سے گذ ررہا ہے اور ابھی اس نے اپنی عمر عزیز کی ۲۰/ ہی بہاریں دیکھی ہیں، مگر یہاں کی خدمات اور محیرالعقول ترقیات سے ہر صاحبِ نظر جو ششدر ہے، اس میں یہاں کی خصوصیات کو بڑا دخل ہے، جن میں ابتداء سے اکابر علماء کرام،بزرگان ِ دین اور اہل اللہ کی دعائیں اور کرم گستریاں اور ان کا اس ادارہ کی طرف رجوع سر فہرست ہے، الحمد للہ اس ادارہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ ہندوستان بھر کے اکابر علماء وبزرگانِ دین کی ادعیۂ نیم شبی اور ان کے یہاں ورود ِمسعود سے ادارہ مستفیض ہے،بالخصوص حضرت فدائے ملت ؒ تو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس ادارہ کو چاہتے تھے، اس علاقہ میں جب بھی ان کا دورہ ہوتا چاہے کتنی مشغولیات ہوں دو ہی منٹ کے لئے کیوں نہ ہوں یہاں ضرور تشریف لاتے، یہاں کے پہلے اجلاس دستاربندی منعقدہ ۶/۵/۴/ اپریل ۲۰۰۵ء میں کے موقع سے جب آپ سخت علیل تھے، ڈاکٹروں کی بھی ہدایت تھی کہ سفر سے کلی اجتناب کیا جائے، اور اعزہ واقارب بالخصوص جانشین فدائے ملت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب مدظلہ کا بیان ہے کہ میں تو سخت مخالف تھا کہ حضرتؒ سفر نہ کریں، مگر حضرت ؒ کسی طرح تیار نہیں ہوئے اور یہ کہتے ہوئے حضرت تشریف لائے کہ ”میں کشن گنج جاؤں گا، جامعہ حسینیہ مدنی نگر مولانا غیاث الدین صاحب کا نہیں میرا مدرسہ ہے“، اوراسی بیماری اور معذوری کی حالت میں حضرت تشریف لاکر اپنے دست ِ مبارک سے فارغ شدہ ۱۵۰/ حفاظ ِ کرام کو دستار سے نوازا، قائد ملت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی مدظلہ العالی نے اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا کہ حضرت فدائے ملت ؒ نے بہت سے اداروں کی سرپرستی فرمائی ہے، مگر جہاں تک میں جانتاہوں کہ حضرت نے مولانا محمد غیاث الدین کے مدرسہ کے علاوہ کسی اور مدرسہ کے بارے میں یہ نہیں فرمایا کہ ”یہ میرا مدرسہ ہے“ اسی طرح ایک دفعہ حضرت مہتمم افریقہ کے ایک مہمان یوسف بھائی پاریا دامت بر کاتہم کو لے کر حضرت فدائے ملت ؒ کے پاس تشریف لے گئے تو حضرت نے فرمایا کہ آپ حضرات کو ناشتہ کی خصوصی دعوت ہے، پھر ناشتہ کے بعد آپ نے یوسف بھائی سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر کوئی زحمت نہ ہوتو کھانا بھی ساتھ کھالیں، اس پر یوسف بھا ئی نے کہا کہ حضرت میں اکیلا نہیں ہوں، میرے ساتھ تو مولانا محمدغیاث الدین صاحب بھی ہیں، اس موقع سے حضرت فدائے ملت ؒ نے جو تاریخی جملہ ارشاد فرمایا ا س سے بخوبی انداز ہ ہوتا ہے کہ حضرت ؒ جامعہ اور اس کے بانی حضرت مہتمم صاحب مدظلہ کو کتنا قریب اور کتنا عزیز سمجھتے تھے، آپ نے فرمایا ”مولوی محمد غیاث الدین صاحب تو میرے گھر کے آدمی ہیں“ علاوہ ازیں حضرت کے انتقال سے کچھ دنوں قبل جب یہ ادارہ ٹین کے معمولی چند کمروں پر مشتمل تھا اور آپ اس علاقہ میں تشریف لائے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا کہ:
بھائی یہ ادارہ تو ابھی گھانس پھونس کا ہے، مگر باطل اس کو اپنا حریف سمجھ رہا ہے۔
اسی موقع سے حضرت نے جامعہ کی وسیع وعریض مسجد کی بنیاد رکھی جس کی تعمیر وتکمیل میں آپ کی دعاؤں کا اثر خصوصیت سے دیکھنے کو ملا، وہ اس طور پر کہ مسجد کی بنیاد تو رکھ دی گئی، مگر فنڈ تقریباً خالی یعنی صرف ۵/ ہزارورپے تھے، اس لئے کام شروع نہیں کیا گیا، پھر کچھ دنوں بعد جب حضرت کی دوبارہ جامعہ آمد ہوئی تو حضرت نے دیکھا کہ کام بالکل نہیں ہوا ہے، تو سبب دریافت فرمانے کے بعد آپ نے فرمایا:
کہ فنڈ کی کمی اور زیادتی سے کیا لینا دینا؟ ابھی ایک دو دن میں کام شروع کردو،
یہ اللہ کا گھر ہے اس کا انتظام انشاء اللہ وہ خود پردۂ غیب سے فرمائیں گے، ہم تو کام شروع کرنے کے مکلف ہیں۔
چنانچہ حضرت کے حکم کے بموجب دوسرے دن سے کام شروع کردیا گیا، اور الحمدللہ حضرت کی دعاؤں کی بدولت دیکھتے ہی دیکھتے ا س وسیع وعریض مسجد(102x52) کی تعمیر وتکمیل بہت جلد ہوگئی۔
اتنا وثوق سے یہ کہنا تو ذرا دشوار نظر آرہا ہے کہ اب تک سر زمین بہار میں کہیں ایک ساتھ ساڑھے تین سو سے زائد حفاظِ کرام کی دستار بندی نہیں ہوئی ہے، مگر پورے اعتماد اور یقین ِ کامل سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ سر زمین سیمانچل میں یہ پہلا موقع تھا(۲۳/۲۲ مارچ ۲۰۱۳ء) جب کسی ادارہ میں ایک ساتھ ساڑھے تین سو سے زائد حفاظ ِ کرام کی دستار بندی کاروح پرور اور کیف آور نظار ہ پیش کیا گیا۔ اس لحاظ سے یہ جامعہ کی تاریخی خصوصیت اور تاریخ ساز کارنامہ ہے، جو اس نے بہت کم مدت یعنی ۷/ سال کی قلیل عرصہ میں انجام دی ہے، فللّٰہ الحمد والمنہ۔
Jamia Husainia Madni Nagar Kishanganj
+91-9472477241, 9973918786
info@jamiah.in
www.jamiah.in